ورنہ انسان مر گیا ہوتا
کوئی بے نام جستجو ہے ابھی
ادا جعفری
وہ کیسی آس تھی ادا جو کو بہ کو لیے پھری
وہ کچھ تو تھا جو دل کو آج تک کبھو ملا نہیں
ادا جعفری
وہ تشنگی تھی کہ شبنم کو ہونٹ ترسے ہیں
وہ آب ہوں کہ مقید گہر گہر میں رہوں
ادا جعفری
ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی
اس کی خوشبو سے گفتگو ہے ابھی
ادا جعفری
ابھی صحیفۂ جاں پر رقم بھی کیا ہوگا
ابھی تو یاد بھی بے ساختہ نہیں آئی
ادا جعفری
اگر سچ اتنا ظالم ہے تو ہم سے جھوٹ ہی بولو
ہمیں آتا ہے پت جھڑ کے دنوں گل بار ہو جانا
ادا جعفری
بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا
ادا جعفری
بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا
ادا جعفری
بس ایک بار منایا تھا جشن محرومی
پھر اس کے بعد کوئی ابتلا نہیں آئی
ادا جعفری