EN हिंदी
ادا جعفری شیاری | شیح شیری

ادا جعفری شیر

41 شیر

آ دیکھ کہ میرے آنسوؤں میں
یہ کس کا جمال آ گیا ہے

ادا جعفری




ابھی صحیفۂ جاں پر رقم بھی کیا ہوگا
ابھی تو یاد بھی بے ساختہ نہیں آئی

ادا جعفری




اگر سچ اتنا ظالم ہے تو ہم سے جھوٹ ہی بولو
ہمیں آتا ہے پت جھڑ کے دنوں گل بار ہو جانا

ادا جعفری




بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا

ادا جعفری




بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا

ادا جعفری




بس ایک بار منایا تھا جشن محرومی
پھر اس کے بعد کوئی ابتلا نہیں آئی

ادا جعفری




بے نوا ہیں کہ تجھے صوت و نوا بھی دی ہے
جس نے دل توڑ دیئے اس کی دعا بھی دی ہے

ادا جعفری




بولتے ہیں دلوں کے سناٹے
شور سا یہ جو چار سو ہے ابھی

ادا جعفری




بجھی ہوئی ہیں نگاہیں غبار ہے کہ دھواں
وہ راستہ ہے کہ اپنا بھی نقش پا نہ ملے

ادا جعفری