جو چراغ سارے بجھا چکے انہیں انتظار کہاں رہا
یہ سکوں کا دور شدید ہے کوئی بے قرار کہاں رہا
جو دعا کو ہاتھ اٹھائے بھی تو مراد یاد نہ آ سکی
کسی کارواں کا جو ذکر تھا وہ پس غبار کہاں رہا
یہ طلوع روز ملال ہے سو گلہ بھی کس سے کریں گے ہم
کوئی دل ربا کوئی دل شکن کوئی دل فگار کہاں رہا
کوئی بات خواب و خیال کی جو کرو تو وقت کٹے گا اب
ہمیں موسموں کے مزاج پر کوئی اعتبار کہاں رہا
ہمیں کو بہ کو جو لیے پھری کسی نقش پا کی تلاش تھی
کوئی آفتاب تھا ضو فگن سر رہ گزار کہاں رہا
مگر ایک دھن تو لگی رہی نہ یہ دل دکھا نہ گلہ ہوا
کہ نگہ کو رنگ بہار پر کوئی اختیار کہاں رہا
سر دشت ہی رہا تشنہ لب جسے زندگی کی تلاش تھی
جسے زندگی کی تلاش تھی لب جوئبار کہاں رہا
غزل
جو چراغ سارے بجھا چکے انہیں انتظار کہاں رہا
ادا جعفری