بے نوا ہیں کہ تجھے صوت و نوا بھی دی ہے
جس نے دل توڑ دیئے اس کی دعا بھی دی ہے
ادا جعفری
بولتے ہیں دلوں کے سناٹے
شور سا یہ جو چار سو ہے ابھی
ادا جعفری
بجھی ہوئی ہیں نگاہیں غبار ہے کہ دھواں
وہ راستہ ہے کہ اپنا بھی نقش پا نہ ملے
ادا جعفری
دل کے ویرانے میں گھومے تو بھٹک جاؤ گے
رونق کوچہ و بازار سے آگے نہ بڑھو
ادا جعفری
آ دیکھ کہ میرے آنسوؤں میں
یہ کس کا جمال آ گیا ہے
ادا جعفری
گل پر کیا کچھ بیت گئی ہے
البیلا جھونکا کیا جانے
ادا جعفری
ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی
پھول بالوں میں اک سجانے کو
ادا جعفری
ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے
کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا
ادا جعفری
ہزار کوس نگاہوں سے دل کی منزل تک
کوئی قریب سے دیکھے تو ہم کو پہچانے
ادا جعفری