ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی
اس کی خوشبو سے گفتگو ہے ابھی
ادا جعفری
آ دیکھ کہ میرے آنسوؤں میں
یہ کس کا جمال آ گیا ہے
ادا جعفری
بجھی ہوئی ہیں نگاہیں غبار ہے کہ دھواں
وہ راستہ ہے کہ اپنا بھی نقش پا نہ ملے
ادا جعفری
بولتے ہیں دلوں کے سناٹے
شور سا یہ جو چار سو ہے ابھی
ادا جعفری
بے نوا ہیں کہ تجھے صوت و نوا بھی دی ہے
جس نے دل توڑ دیئے اس کی دعا بھی دی ہے
ادا جعفری
بس ایک بار منایا تھا جشن محرومی
پھر اس کے بعد کوئی ابتلا نہیں آئی
ادا جعفری
بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا
ادا جعفری
بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا
ادا جعفری
اگر سچ اتنا ظالم ہے تو ہم سے جھوٹ ہی بولو
ہمیں آتا ہے پت جھڑ کے دنوں گل بار ہو جانا
ادا جعفری