آخری ٹیس آزمانے کو
جی تو چاہا تھا مسکرانے کو
یاد اتنی بھی سخت جاں تو نہیں
اک گھروندا رہا ہے ڈھانے کو
سنگریزوں میں ڈھل گئے آنسو
لوگ ہنستے رہے دکھانے کو
زخم نغمہ بھی لو تو دیتا ہے
اک دیا رہ گیا جلانے کو
جلنے والے تو جل بجھے آخر
کون دیتا خبر زمانے کو
کتنے مجبور ہو گئے ہوں گے
ان کہی بات منہ پہ لانے کو
کھل کے ہنسنا تو سب کو آتا ہے
لوگ ترسے ہیں اک بہانے کو
ریزہ ریزہ بکھر گیا انساں
دل کی ویرانیاں جتانے کو
حسرتوں کی پناہ گاہوں میں
کیا ٹھکانے ہیں سر چھپانے کو
ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی
پھول بالوں میں اک سجانے کو
آس کی بات ہو کہ سانس اداؔ
یہ کھلونے تھے ٹوٹ جانے کو
غزل
آخری ٹیس آزمانے کو
ادا جعفری