جال میں جس کے شوق آئی ہے
اس کے دل کوں تڑپھ کماہی ہے
جگ کے خوباں ہیں تجھ پے سب مفتوں
تن میں یوسف بھی ایک چاہی ہے
داغ سیں کیوں نہ دل اجالا ہو
چشم کی روشنی سیاہی ہے
اب تلک کھینچ کھینچ جور و جفا
ہر طرح دوستی نباہی ہے
طور کیا پوچھتے ہو کافر کا
شوخ ہے بانکہ ہے سپاہی ہے
ہاتھ میں کہربا کی سمرن دیکھ
رنگ عاشق کا آج کاہی ہے
حال عاشق کا کیا بیاں کیجے
خوار ہے خستہ ہے تباہی ہے
آبروؔ کیوں نہ ہو رہے خاموش
درد کہنے کی یاں مناہی ہے
غزل
جال میں جس کے شوق آئی ہے
آبرو شاہ مبارک