EN हिंदी
اشق شیاری | شیح شیری

اشق

422 شیر

تجھے کچھ عشق و الفت کے سوا بھی یاد ہے اے دل
سنائے جا رہا ہے ایک ہی افسانہ برسوں سے

عبد المجید سالک




اندھیری رات کو میں روز عشق سمجھا تھا
چراغ تو نے جلایا تو دل بجھا میرا

عبدالرحمان احسان دہلوی




یہ داغ عشق جو مٹتا بھی ہے چمکتا بھی ہے
یہ زخم ہے کہ نشاں ہے مجھے نہیں معلوم

ابرار احمد




عشق کی صف منیں نمازی سب
آبروؔ کو امام کرتے ہیں

آبرو شاہ مبارک




عشق کے مضموں تھے جن میں وہ رسالے کیا ہوئے
اے کتاب زندگی تیرے حوالے کیا ہوئے

ابو محمد سحر




رہ عشق و وفا بھی کوچہ و بازار ہو جیسے
کبھی جو ہو نہیں پاتا وہ سودا یاد آتا ہے

ابو محمد سحر




سحرؔ اب ہوگا میرا ذکر بھی روشن دماغوں میں
محبت نام کی اک رسم بے جا چھوڑ دی میں نے

ابو محمد سحر