EN हिंदी
یقین ہے کہ گماں ہے مجھے نہیں معلوم | شیح شیری
yaqin hai ki guman hai mujhe nahin malum

غزل

یقین ہے کہ گماں ہے مجھے نہیں معلوم

ابرار احمد

;

یقین ہے کہ گماں ہے مجھے نہیں معلوم
یہ آگ ہے کہ دھواں ہے مجھے نہیں معلوم

یہ ہر طرف ہے کوئی محفل طرب برپا
کہ بزم غم زدگاں ہے مجھے نہیں معلوم

لیے تو پھرتا ہوں اک موسم وجود کو میں
بہار ہے کہ خزاں ہے مجھے نہیں معلوم

وہ رنگ گل تو اسی خاک میں گھلا تھا کہیں
مگر مہک وہ کہاں ہے مجھے نہیں معلوم

خبر تو ہے کہ یہیں قریۂ ملال بھی ہے
یہ کون محو فغاں ہے مجھے نہیں معلوم

میں تجھ سے دور اسی دشت نا رسی میں ہوں گم
ادھر تو نوحہ کناں ہے مجھے نہیں معلوم

یہ داغ عشق جو مٹتا بھی ہے چمکتا بھی ہے
یہ زخم ہے کہ نشاں ہے مجھے نہیں معلوم

گزرتا جاتا ہوں اک عرصۂ گریز سے میں
یہ لا مکاں کہ مکاں ہے مجھے نہیں معلوم

رواں دواں تو ہے یہ جوئے زندگی ہر دم
مگر کدھر کو رواں ہے مجھے نہیں معلوم

یہ کشمکش جو من و تو کے درمیاں ہے سو ہے
میان سود و زیاں ہے مجھے نہیں معلوم

یہ کوئے خاک ہے یا پھر دیار خواب کوئی
زمین ہے کہ زماں ہے مجھے نہیں معلوم

یہیں کہیں پہ وہ خوش رو تھا آج سے پہلے
مگر وہ آج کہاں ہے مجھے نہیں معلوم