کر کے دفن اپنے پرائے چل دیے
بیکسی کا قبر پر ماتم رہا
احسن مارہروی
ادھر سے آج وہ گزرے تو منہ پھیرے ہوئے گزرے
اب ان سے بھی ہماری بے کسی دیکھی نہیں جاتی
اثر لکھنوی
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
conversing has never been so diffficult for me
your company now is no more as it used to be
بہادر شاہ ظفر
کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
باقی صدیقی
میں بولتا ہوں تو الزام ہے بغاوت کا
میں چپ رہوں تو بڑی بے بسی سی ہوتی ہے
بشیر بدر
سب نے غربت میں مجھ کو چھوڑ دیا
اک مری بے کسی نہیں جاتی
بیدم شاہ وارثی
عاشق کی بے کسی کا تو عالم نہ پوچھیے
مجنوں پہ کیا گزر گئی صحرا گواہ ہے
حفیظ جونپوری