EN हिंदी
بیکسی شیاری | شیح شیری

بیکسی

12 شیر

کر کے دفن اپنے پرائے چل دیے
بیکسی کا قبر پر ماتم رہا

احسن مارہروی




ادھر سے آج وہ گزرے تو منہ پھیرے ہوئے گزرے
اب ان سے بھی ہماری بے کسی دیکھی نہیں جاتی

اثر لکھنوی




بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

conversing has never been so diffficult for me
your company now is no more as it used to be

بہادر شاہ ظفر




کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو

باقی صدیقی




میں بولتا ہوں تو الزام ہے بغاوت کا
میں چپ رہوں تو بڑی بے بسی سی ہوتی ہے

بشیر بدر




سب نے غربت میں مجھ کو چھوڑ دیا
اک مری بے کسی نہیں جاتی

بیدم شاہ وارثی




عاشق کی بے کسی کا تو عالم نہ پوچھیے
مجنوں پہ کیا گزر گئی صحرا گواہ ہے

حفیظ جونپوری