EN हिंदी
فریکچر شیاری | شیح شیری

فریکچر

19 شیر

کون انگڑائی لے رہا ہے عدمؔ
دو جہاں لڑکھڑائے جاتے ہیں

عبد الحمید عدم




شاخ گل جھوم کے گل زار میں سیدھی جو ہوئی
پھر گیا آنکھ میں نقشہ تری انگڑائی کا

آغا حجو شرف




حد تکمیل کو پہنچی تری رعنائی حسن
جو کسر تھی وہ مٹا دی تری انگڑائی نے

آنند نرائن ملا




اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا

عزیز لکھنوی




دل کا کیا حال کہوں صبح کو جب اس بت نے
لے کے انگڑائی کہا ناز سے ہم جاتے ہیں

how to describe my state when at the crack of dawn
she stretched in lagour and said it was time to be gone

داغؔ دہلوی




کون یہ لے رہا ہے انگڑائی
آسمانوں کو نیند آتی ہے

فراق گورکھپوری




دریائے حسن اور بھی دو ہاتھ بڑھ گیا
انگڑائی اس نے نشے میں لی جب اٹھا کے ہاتھ

امام بخش ناسخ