EN हिंदी
عرفی آفاقی شیاری | شیح شیری

عرفی آفاقی شیر

4 شیر

چلا تھا میں تو سمندر کی تشنگی لے کر
ملا یہ کیسا سرابوں کا سلسلہ مجھ کو

عرفی آفاقی




دیوانہ وار ناچیے ہنسئے گلوں کے ساتھ
کانٹے اگر ملیں تو جگر میں چبھوئیے

عرفی آفاقی




معلوم ہے عرفیؔ جو ہے قسمت میں ہماری
صحرا ہی کوئی گریۂ شبنم کو ملے گا

عرفی آفاقی




وہ آئے جاتا ہے کب سے پر آ نہیں جاتا
وہی صدائے قدم کا ہے سلسلہ کہ جو تھا

عرفی آفاقی