EN हिंदी
عمیر منظر شیاری | شیح شیری

عمیر منظر شیر

9 شیر

بڑھتے چلے گئے جو وہ منزل کو پا گئے
میں پتھروں سے پاؤں بچانے میں رہ گیا

عمیر منظر




ہر بار ہی میں جان سے جانے میں رہ گیا
میں رسم زندگی جو نبھانے میں رہ گیا

عمیر منظر




اس محفل میں میں بھی کیا بیباک ہوا
عیب و ہنر کا سارا پردہ چاک ہوا

عمیر منظر




ساتھی مرے کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے
میں زندگی کے ناز اٹھانے میں رہ گیا

عمیر منظر




سنا یہ تھا بہت آسودہ ہیں ساحل کے باشندے
مگر ٹوٹی ہوئی کشتی میں دریا پار ہونا تھا

عمیر منظر




تذکرہ ہو ترا زمانے میں
ایسا پہلو کوئی بیان میں رکھ

عمیر منظر




یہاں ہم نے کسی سے دل لگایا ہی نہیں منظرؔ
کہ اس دنیا سے آخر ایک دن بے زار ہونا تھا

عمیر منظر




یہ میرے ساتھی ہیں پیارے ساتھی مگر انہیں بھی نہیں گوارا
میں اپنی وحشت کے مقبرے سے نئی تمنا کے خواب دیکھوں

عمیر منظر




یہ تو سچ ہے کہ وہ ستم گر ہے
در پر آیا ہے تو امان میں رکھ

عمیر منظر