جب انسان کو اپنا کچھ ادراک ہوا
سارا عالم اس کی نظر میں خاک ہوا
اس محفل میں میں بھی کیا بیباک ہوا
عیب و ہنر کا سارا پردہ چاک ہوا
اس کی گلی سے شاید ہو کر آیا ہے
باد صبا کا جھونکا جو سفاک ہوا
ضبط محبت کی پابندی ختم ہوئی
شوق بدن کا سارا قصہ پاک ہوا
اس بستی سے اپنا رشتۂ جاں منظرؔ
آتے جاتے موسم کی پوشاک ہوا
غزل
جب انسان کو اپنا کچھ ادراک ہوا
عمیر منظر