EN हिंदी
کبھی اقرار ہونا تھا کبھی انکار ہونا تھا | شیح شیری
kabhi iqrar hona tha kabhi inkar hona tha

غزل

کبھی اقرار ہونا تھا کبھی انکار ہونا تھا

عمیر منظر

;

کبھی اقرار ہونا تھا کبھی انکار ہونا تھا
اسے کس کس طرح سے در پئے آزار ہونا تھا

سنا یہ تھا بہت آسودہ ہیں ساحل کے باشندے
مگر ٹوٹی ہوئی کشتی میں دریا پار ہونا تھا

صدائے الاماں دیوار گریہ سے پلٹ آئی
مقدر کوفہ و کابل کا جو مسمار ہونا تھا

مقدر کے نوشتے میں جو لکھا ہے وہی ہوگا
یہ مت سوچو کہ کس پر کس طرح سے وار ہونا تھا

یہاں ہم نے کسی سے دل لگایا ہی نہیں منظرؔ
کہ اس دنیا سے آخر ایک دن بے زار ہونا تھا