EN हिंदी
بنا کے وہم و گماں کی دنیا حقیقتوں کے سراب دیکھوں | شیح شیری
bana ke wahm o guman ki duniya haqiqaton ke sarab dekhun

غزل

بنا کے وہم و گماں کی دنیا حقیقتوں کے سراب دیکھوں

عمیر منظر

;

بنا کے وہم و گماں کی دنیا حقیقتوں کے سراب دیکھوں
میں اپنے ہی آئینے میں خود کو جہاں بھی دیکھوں خراب دیکھوں

یہ کس کے سائے نے رفتہ رفتہ اک عکس موہوم کر دیا ہے
عدم اگر ہے وجود میرا تو روز و شب کیوں عذاب دیکھوں

بدل بدل کے ہر ایک پہلو فسانہ کیا کیا بنا رہا ہے
بہت سے کردار آئے ہوں گے مگر کوئی انتخاب دیکھوں

یہ میرے ساتھی ہیں پیارے ساتھی مگر انہیں بھی نہیں گوارا
میں اپنی وحشت کے مقبرے سے نئی تمنا کے خواب دیکھوں

میں چاہتا ہوں بدل دوں منظرؔ پرانے نقش و نگار سارے
کہ سرحد جسم و جاں سے آگے نیا کوئی اضطراب دیکھوں