EN हिंदी
تنویر سامانی شیاری | شیح شیری

تنویر سامانی شیر

6 شیر

اپنے کاندھے پہ لیے پھرتی ہے احساس کا بوجھ
زندگی کیا کسی مقتل کی تمنائی ہے

تنویر سامانی




اپنی صورت بھی کب اپنی لگتی ہے
آئینوں میں خود کو دیکھا کرتا ہوں

تنویر سامانی




فرضی قصوں جھوٹی باتوں سے اکثر
سچائی کے قد کو ناپا کرتا ہوں

تنویر سامانی




فکر کی آنچ میں پگھلے تو یہ معلوم ہوا
کتنے پردوں میں چھپی ذات کی سچائی ہے

تنویر سامانی




گھروں میں قید ہیں بستی کے شرفا
سڑک پر ہیں فسادی اور غنڈے

تنویر سامانی




کیوں نہ تنویرؔ پھر اظہار کی جرأت کیجے
خامشی بھی تو یہاں باعث رسوائی ہے

تنویر سامانی