EN हिंदी
شاد لکھنوی شیاری | شیح شیری

شاد لکھنوی شیر

13 شیر

چشم تر نے بہا کے جوے سرشک
موج دریا کو دھار پر مارا

شاد لکھنوی




ہر ایک جواہر بیش بہا چمکا تو یہ پتھر کہنے لگا
جو سنگ ترا وہ سنگ مرا تو اور نہیں میں اور نہیں

شاد لکھنوی




اس سے بہتر اور کہہ لیں گے اگر زندہ ہیں شادؔ
کھو گیا پہلا جو وہ دیوان کیا تھا کچھ نہ تھا

شاد لکھنوی




جب جیتے جی نہ پوچھا پوچھیں گے کیا مرے پر
مردے کی روح کو بھی گھر سے نکالتے ہیں

شاد لکھنوی




جوانی سے زیادہ وقت پیری جوش ہوتا ہے
بھڑکتا ہے چراغ صبح جب خاموش ہوتا ہے

passion runneth stronger in dotage than in youth
the flame flickers burning brighter ere it dies forsooth

شاد لکھنوی




خدا کا ڈر نہ ہوتا گر بشر کو
خدا جانے یہ بندہ کیا نہ کرتا

شاد لکھنوی




مشکل میں کب کسی کا کوئی آشنا ہوا
تلوار جب گلے سے ملی سر جدا ہوا

شاد لکھنوی




نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے

شاد لکھنوی




پانی پانی ہو خجالت سے ہر اک چشم حباب
جو مقابل ہو مری اشک بھری آنکھوں سے

شاد لکھنوی