EN हिंदी
شاد لکھنوی شیاری | شیح شیری

شاد لکھنوی شیر

13 شیر

صحبت وصل ہے مسدود ہیں در ہائے حجاب
نہیں معلوم یہ کس آہ سے شرم آتی ہے

شاد لکھنوی




وصل میں بیکار ہے منہ پر نقاب
شرم کا آنکھوں پہ پردہ چاہئے

شاد لکھنوی




وصال یار سے دونا ہوا عشق
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

شاد لکھنوی




وہ نہا کر زلف پیچاں کو جو بکھرانے لگے
حسن کے دریا میں پنہاں سانپ لہرانے لگے

شاد لکھنوی