EN हिंदी
شاد عظیم آبادی شیاری | شیح شیری

شاد عظیم آبادی شیر

29 شیر

پروانوں کا تو حشر جو ہونا تھا ہو چکا
گزری ہے رات شمع پہ کیا دیکھتے چلیں

شاد عظیم آبادی




خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے

silence only intensifies one's grief
cry out heart and you will find relief

شاد عظیم آبادی




کچھ ایسا کر کہ خلد آباد تک اے شادؔ جا پہنچیں
ابھی تک راہ میں وہ کر رہے ہیں انتظار اپنا

شاد عظیم آبادی




لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے
بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں

why should I not be interred with a covered face
I have been cast from her presence in such disgrace

شاد عظیم آبادی




میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم

شاد عظیم آبادی




ملے گا غیر بھی ان کے گلے بہ شوق اے دل
حلال کرنے مجھے عید کا ہلال آیا

شاد عظیم آبادی




نظر کی برچھیاں جو سہہ سکے سینا اسی کا ہے
ہمارا آپ کا جینا نہیں جینا اسی کا ہے

شاد عظیم آبادی




نگاہ ناز سے ساقی کا دیکھنا مجھ کو
مرا وہ ہاتھ میں ساغر اٹھا کے رہ جانا

شاد عظیم آبادی




ترا آستاں جو نہ مل سکا تری رہ گزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے جو وہاں نہیں تو کہیں سہی

شاد عظیم آبادی