جیتے جی ہم تو غم فردا کی دھن میں مر گئے
کچھ وہی اچھے ہیں جو واقف نہیں انجام سے
شاد عظیم آبادی
جیسے مری نگاہ نے دیکھا نہ ہو کبھی
محسوس یہ ہوا تجھے ہر بار دیکھ کر
شاد عظیم آبادی
جب کسی نے حال پوچھا رو دیا
چشم تر تو نے تو مجھ کو کھو دیا
شاد عظیم آبادی
اظہار مدعا کا ارادہ تھا آج کچھ
تیور تمہارے دیکھ کے خاموش ہو گیا
thoughI had intended my feelings to convey
seeing your disposition, I did not dare to say
شاد عظیم آبادی
ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ
ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں
شاد عظیم آبادی
ہزار شکر میں تیرے سوا کسی کا نہیں
ہزار حیف کہ اب تک ہوا نہ تو میرا
شاد عظیم آبادی
دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں
شاد عظیم آبادی
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
شاد عظیم آبادی
چمن میں جا کے ہم نے غور سے اوراق گل دیکھے
تمہارے حسن کی شرحیں لکھی ہیں ان رسالوں میں
شاد عظیم آبادی