آج بھی ہے وہی مقام آج بھی لب پہ ان کا نام
منزل بے شمار گام اپنے سفر کو کیا کروں
سالک لکھنوی
اپنی خودداری سلامت دل کا عالم کچھ سہی
جس جگہ سے اٹھ چکے ہیں اس جگہ پھر جائیں کیا
سالک لکھنوی
بہار گلستاں ہم کو نہ پہچانے تعجب ہے
گلوں کے رخ پہ چھڑکا ہے بہت خون جگر ہم نے
سالک لکھنوی
چاہا تھا ٹھوکروں میں گزر جائے زندگی
لوگوں نے سنگ راہ سمجھ کر ہٹا دیا
سالک لکھنوی
دھواں دیتا ہے دامان محبت
ان آنکھوں سے کوئی آنسو گرا ہے
سالک لکھنوی
دل نے سینے میں کچھ قرار لیا
جب تجھے خوب سا پکار لیا
سالک لکھنوی
جو تیری بزم سے اٹھا وہ اس طرح اٹھا
کسی کی آنکھ میں آنسو کسی کے دامن میں
سالک لکھنوی
کہی کسی سے نہ روداد زندگی میں نے
گزار دینے کی شے تھی گزار دی میں نے
سالک لکھنوی
کھنک جاتے ہیں جب ساغر تو پہروں کان بجتے ہیں
ارے توبہ بڑی توبہ شکن آواز ہوتی ہے
سالک لکھنوی