آخر تڑپ تڑپ کے یہ خاموش ہو گیا
دل کو سکون مل ہی گیا اضطراب میں
ساحر ہوشیار پوری
اب تو احساس تمنا بھی نہیں
قافلہ دل کا لٹا ہو جیسے
ساحر ہوشیار پوری
اہل کشتی نے خود کشی کی تھی
ہوا بدنام ناخدا کا نام
ساحر ہوشیار پوری
اپنی اپنی ذات میں گم ہیں اہل دل بھی اہل نظر بھی
محفل میں دل کیوں کر بہلے محفل میں تنہائی بہت ہے
ساحر ہوشیار پوری
دل وہ صحرا ہے کہ جس میں رات دن
پھول کھلتے ہیں بہار آتی نہیں
ساحر ہوشیار پوری
ہم کو اغیار کا گلا کیا ہے
زخم کھائیں ہیں ہم نے یاروں سے
why should enemies be my reason to complain
when at the hands of friends, I have suffered pain
ساحر ہوشیار پوری
ہم قریب آ کر اور دور ہوئے
اپنے اپنے نصیب ہوتے ہیں
ساحر ہوشیار پوری
ہوئی تھی خواب میں خوشبو سی محسوس
تم آئے خواب کی تعبیر دیکھی
ساحر ہوشیار پوری
جب بگڑتے ہیں بات بات پہ وہ
وصل کے دن قریب ہوتے ہیں
ساحر ہوشیار پوری