بس فرق اس قدر ہے گناہ و ثواب میں
پیری میں وہ روا ہے یہ جائز شباب میں
تاثیر جذب شوق کا یہ سحر دیکھیے
خود آ گئے ہیں وہ مرے خط کے جواب میں
آخر تڑپ تڑپ کے یہ خاموش ہو گیا
دل کو سکون مل ہی گیا اضطراب میں
آنکھیں ملا کے یا تو عنایت ہو ایک جام
یا زہر ہی ملا دو ہماری شراب میں
رخ آفتاب ہونٹ کنول چال حشر خیز
کس شے کی اب کمی ہے تمہارے شباب میں
دنیا میں ڈھونڈھتے رہے ہم راحتیں عبث
دنیا کی راحتیں تو ہیں تیرے عتاب میں
ساحرؔ عجیب شے ہے محبت کا درد بھی
دل مبتلا ہے ایک مسلسل عذاب میں
غزل
بس فرق اس قدر ہے گناہ و ثواب میں
ساحر ہوشیار پوری