EN हिंदी
رجب علی بیگ سرور شیاری | شیح شیری

رجب علی بیگ سرور شیر

6 شیر

اب ہے دعا یہ اپنی ہر شام ہر سحر کو
یا وہ بدن سے لپٹے یا جان تن سے نکلے

رجب علی بیگ سرور




دم تکفین بھی گر یار آوے
تو نکلیں ہاتھ باہر یہ کفن سے

رجب علی بیگ سرور




کیا یہی تھی شرط کچھ انصاف کی اے تند خو
جو بھلا ہو آپ سے اس سے برائی کیجیے

رجب علی بیگ سرور




لازم ہے سوز عشق کا شعلہ عیاں نہ ہو
جل بجھئے اس طرح سے کہ مطلق دھواں نہ ہو

رجب علی بیگ سرور




نہ پہنچا گوش تک اک تیرے ہیہات
ہزاروں نالہ نکلا اس دہن سے

رجب علی بیگ سرور




نادان کہہ رہے ہیں جسے آفتاب حشر
ذرہ ہے اس کے روئے درخشاں کے سامنے

رجب علی بیگ سرور