EN हिंदी
عبید اللہ صدیقی شیاری | شیح شیری

عبید اللہ صدیقی شیر

6 شیر

اسی فلک سے اترتا ہے یہ اندھیرا بھی
یہ روشنی بھی اسی آسماں سے آتی ہے

عبید اللہ صدیقی




پہلے چنگاری سے اک شعلہ بناتا ہے مجھے
پھر وہی تیز ہواؤں سے ڈراتا ہے مجھے

عبید اللہ صدیقی




شام ہوتی ہے تو میرا ہی فسانہ اکثر
وہ جو ٹوٹا ہوا تارا ہے سناتا ہے مجھے

عبید اللہ صدیقی




یہ آنکھیں یہ دماغ یہ زخموں کا گھر بدن
سب محو خواب ہیں دل بے تاب کے سوا

عبید اللہ صدیقی




یہ کس کا چہرہ دمکتا ہے میری آنکھوں میں
یہ کس کی یاد مجھے کہکشاں سے آتی ہے

عبید اللہ صدیقی




زندگی اک خواب ہے یہ خواب کی تعبیر ہے
حلقۂ گیسوئے دنیا پاؤں کی زنجیر ہے

عبید اللہ صدیقی