EN हिंदी
نظیر باقری شیاری | شیح شیری

نظیر باقری شیر

12 شیر

آ گیا یاد انہیں اپنے کسی غم کا حساب
ہنسنے والوں نے مرے اشک جو گن کے دیکھے

نظیر باقری




آگ دنیا کی لگائی ہوئی بجھ جائے گی
کوئی آنسو مرے دامن پہ بکھر جانے دے

نظیر باقری




اپنی آنکھوں کے سمندر میں اتر جانے دے
تیرا مجرم ہوں مجھے ڈوب کے مر جانے دے

نظیر باقری




اس لیے چل نہ سکا کوئی بھی خنجر مجھ پر
میری شہ رگ پہ مری ماں کی دعا رکھی تھی

نظیر باقری




کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو

نظیر باقری




خوب گئے پردیس کہ اپنے دیوار و در بھول گئے
شیش محل نے ایسا گھیرا مٹی کے گھر بھول گئے

نظیر باقری




کسی نے ہاتھ بڑھایا ہے دوستی کے لیے
پھر ایک بار خدا اعتبار دے مجھ کو

نظیر باقری




میں ایک ذرہ بلندی کو چھونے نکلا تھا
ہوا نے تھم کے زمیں پر گرا دیا مجھ کو

نظیر باقری




میں نے دنیا چھوڑ دی لیکن مرا مردہ بدن
ایک الجھن کی طرح قاتل کی نظروں میں رہا

نظیر باقری