EN हिंदी
یہ ہیں تیراک مگر حال یہ ان کے دیکھے | شیح شیری
ye hain tairak magar haal ye in ke dekhe

غزل

یہ ہیں تیراک مگر حال یہ ان کے دیکھے

نظیر باقری

;

یہ ہیں تیراک مگر حال یہ ان کے دیکھے
غرق ہوتے ہوئے طوفان میں تنکے دیکھے

چھین لیتے ہیں جو انسان سے احساس نظر
وہ اندھیرے کسی شب کے نہیں دن کے دیکھے

آ گیا یاد انہیں اپنے کسی غم کا حساب
ہنسنے والوں نے مرے اشک جو گن کے دیکھے

وہ عجب شان کا گھر ہے کہ جہاں پر سب لوگ
ایک ہی شکل کے اور ایک ہی سن کے دیکھے

یہ غلط ہے کہ ردا لے کے ستم گروں نے
ان کے منہ دیکھ لیے پاؤں نہ جن کے دیکھے