یہ ہیں تیراک مگر حال یہ ان کے دیکھے
غرق ہوتے ہوئے طوفان میں تنکے دیکھے
چھین لیتے ہیں جو انسان سے احساس نظر
وہ اندھیرے کسی شب کے نہیں دن کے دیکھے
آ گیا یاد انہیں اپنے کسی غم کا حساب
ہنسنے والوں نے مرے اشک جو گن کے دیکھے
وہ عجب شان کا گھر ہے کہ جہاں پر سب لوگ
ایک ہی شکل کے اور ایک ہی سن کے دیکھے
یہ غلط ہے کہ ردا لے کے ستم گروں نے
ان کے منہ دیکھ لیے پاؤں نہ جن کے دیکھے
غزل
یہ ہیں تیراک مگر حال یہ ان کے دیکھے
نظیر باقری