جب نہ آنے کی قسم آپ نے کھا رکھی تھی
میں نے پھر کس کے لیے شمع جلا رکھی تھی
رکھ دیا ان کو بھی جھولی میں ستم گاروں کی
میں نے جن ہاتھوں سے بنیاد وفا رکھی تھی
جانتا کون بھلا کیسے کسی کے حالات
وقت نے بیچ میں دیوار اٹھا رکھی تھی
اس لیے چل نہ سکا کوئی بھی خنجر مجھ پر
میری شہ رگ پہ مری ماں کی دعا رکھی تھی
کس لیے مجھ کو نہ سولی پہ چڑھایا جاتا
منصفوں نے یہ مرے سچ کی سزا رکھی تھی
غزل
جب نہ آنے کی قسم آپ نے کھا رکھی تھی
نظیر باقری