EN हिंदी
نیر سلطانپوری شیاری | شیح شیری

نیر سلطانپوری شیر

4 شیر

بڑھنے لگی یقین و گماں میں جو کشمکش
وعدہ بھی صبح و شام پہ ٹلتا چلا گیا

نیر سلطانپوری




دی ہے نیرؔ مجھ کو ساقی نے یہ کیسی خاص مے
سب کی نظریں اٹھ رہی ہیں میرے ساغر کی طرف

نیر سلطانپوری




پہونچا نہ تھا یقین کی منزل پہ میں ابھی
میرا خیال مجھ سے بھی آگے نکل گیا

نیر سلطانپوری




سینے پہ کتنے داغ لیے پھر رہا ہوں میں
زخموں کا ایک باغ لیے پھر رہا ہوں میں

نیر سلطانپوری