EN हिंदी
مشفق خواجہ شیاری | شیح شیری

مشفق خواجہ شیر

7 شیر

بجھے ہوئے در و دیوار دیکھنے والو
اسے بھی دیکھو جو اک عمر یاں گزار گیا

مشفق خواجہ




دل ایک اور ہزار آزمائشیں غم کی
دیا جلا تو تھا لیکن ہوا کی زد پر تھا

مشفق خواجہ




ہزار بار خود اپنے مکاں پہ دستک دی
اک احتمال میں جیسے کہ میں ہی اندر تھا

مشفق خواجہ




مری نظر میں گئے موسموں کے رنگ بھی ہیں
جو آنے والے ہیں ان موسموں سے ڈرنا کیا

مشفق خواجہ




نظر چرا کے وہ گزرا قریب سے لیکن
نظر بچا کے مجھے دیکھتا بھی جاتا تھا

مشفق خواجہ




یہ حال ہے مرے دیوار و در کی وحشت کا
کہ میرے ہوتے ہوئے بھی مکان خالی ہے

مشفق خواجہ




یہ لمحہ لمحہ زندہ رہنے کی خواہش کا حاصل ہے
کہ لحظہ لحظہ اپنے آپ ہی میں مر رہا ہوں میں

مشفق خواجہ