EN हिंदी
قدم اٹھے تو عجب دل گداز منظر تھا | شیح شیری
qadam uThe to ajab dil-gudaz manzar tha

غزل

قدم اٹھے تو عجب دل گداز منظر تھا

مشفق خواجہ

;

قدم اٹھے تو عجب دل گداز منظر تھا
میں آپ اپنے لیے راستے کا پتھر تھا

دل ایک اور ہزار آزمائشیں غم کی
دیا جلا تو تھا لیکن ہوا کی زد پر تھا

ہر آئینہ مری آنکھوں سے پوچھ لیتا ہے
وہ عکس کیا ہوئے آباد جن سے یہ گھر تھا

ہر اک عذاب کو میں سہ گیا مگر نہ ملا
وہ ایک غم جو مرے حوصلے سے بڑھ کر تھا

یہ وہم تھا کہ مجھے وہ بھلا چکا ہوگا
مگر ملا تو وہ میری ہی طرح مضطر تھا

ہزار بار خود اپنے مکاں پہ دستک دی
اک احتمال میں جیسے کہ میں ہی اندر تھا

تمام عمر کی تنہائیاں سمیٹی ہیں
یہی مرے در و دیوار کا مقدر تھا

اداس رستوں میں پیہم سلگتی صبحوں میں
جو غم گسار تھا کوئی تو دیدۂ تر تھا