گزر گئے ہیں جو دن ان کو یاد کرنا کیا
یہ زندگی کے لیے روز روز مرنا کیا
مری نظر میں گئے موسموں کے رنگ بھی ہیں
جو آنے والے ہیں ان موسموں سے ڈرنا کیا
بجھے ہوئے در و دیوار کو بھی رونق دے
یہ خواب بن کے مری آنکھ سے گزرنا کیا
مثال اشک سر دامن حیات ہوں میں
مری روانی ہی کیا اور مرا ٹھہرنا کیا
ہجوم جلوہ سے جس راہ پر چراغاں تھا
جو بجھ گئی ہے تو اس راہ سے گزرنا کیا
مثال نقش قدم اپنی حیرتوں میں ہوں گم
وہ جا چکا ہے تو پھر انتظار کرنا کیا
گزر رہی ہے غنیمت ہے زندگی مانا
مگر یہ ایک ہی انداز سے گزرنا کیا
غزل
گزر گئے ہیں جو دن ان کو یاد کرنا کیا
مشفق خواجہ