EN हिंदी
گزر گئے ہیں جو دن ان کو یاد کرنا کیا | شیح شیری
guzar gae hain jo din un ko yaad karna kya

غزل

گزر گئے ہیں جو دن ان کو یاد کرنا کیا

مشفق خواجہ

;

گزر گئے ہیں جو دن ان کو یاد کرنا کیا
یہ زندگی کے لیے روز روز مرنا کیا

مری نظر میں گئے موسموں کے رنگ بھی ہیں
جو آنے والے ہیں ان موسموں سے ڈرنا کیا

بجھے ہوئے در و دیوار کو بھی رونق دے
یہ خواب بن کے مری آنکھ سے گزرنا کیا

مثال اشک سر دامن حیات ہوں میں
مری روانی ہی کیا اور مرا ٹھہرنا کیا

ہجوم جلوہ سے جس راہ پر چراغاں تھا
جو بجھ گئی ہے تو اس راہ سے گزرنا کیا

مثال نقش قدم اپنی حیرتوں میں ہوں گم
وہ جا چکا ہے تو پھر انتظار کرنا کیا

گزر رہی ہے غنیمت ہے زندگی مانا
مگر یہ ایک ہی انداز سے گزرنا کیا