یہی نہیں کہ وہ بے تاب و بے قرار گیا
مری رگوں میں جو اک زہر سا اتار گیا
بجھے ہوئے در و دیوار دیکھنے والو
اسے بھی دیکھو جو اک عمر یاں گزار گیا
وفا کے باب میں اس کی تو کچھ کمی نہ ہوئی
میں آپ اپنی خوشی سے یہ بازی ہار گیا
ہوائے سرد کا جھونکا بھی کتنا ظالم تھا
خیال و خواب کے سب پیرہن اتار گیا

غزل
یہی نہیں کہ وہ بے تاب و بے قرار گیا
مشفق خواجہ