EN हिंदी
نہ اب وہ خوش نظری ہے نہ خوش خصالی ہے | شیح شیری
na ab wo KHush-nazari hai na KHush-KHisali hai

غزل

نہ اب وہ خوش نظری ہے نہ خوش خصالی ہے

مشفق خواجہ

;

نہ اب وہ خوش نظری ہے نہ خوش خصالی ہے
یہ کیا ہوا مجھے یہ وضع کیوں بنا لی ہے

یہ حال ہے مرے دیوار و در کی وحشت کا
کہ میرے ہوتے ہوئے بھی مکان خالی ہے

دم نظارہ میری حیرتوں پہ غور نہ کر
کہ میری آنکھ ازل یونہی سوالی ہے

مرے وجود کو جس نے جلا کے راکھ کیا
وہ آگ اب ترے دامن تک آنے والی ہے

گزرتی شب کا ہر اک لمحہ کہہ گیا مجھ سے
سحر کے بعد بھی اک رات آنے والی ہے

مسافران رہ شوق تھک گئے بھی تو کیا
جہاں رکے وہیں بستی نئی بسا لی ہے