نہ اب وہ خوش نظری ہے نہ خوش خصالی ہے
یہ کیا ہوا مجھے یہ وضع کیوں بنا لی ہے
یہ حال ہے مرے دیوار و در کی وحشت کا
کہ میرے ہوتے ہوئے بھی مکان خالی ہے
دم نظارہ میری حیرتوں پہ غور نہ کر
کہ میری آنکھ ازل یونہی سوالی ہے
مرے وجود کو جس نے جلا کے راکھ کیا
وہ آگ اب ترے دامن تک آنے والی ہے
گزرتی شب کا ہر اک لمحہ کہہ گیا مجھ سے
سحر کے بعد بھی اک رات آنے والی ہے
مسافران رہ شوق تھک گئے بھی تو کیا
جہاں رکے وہیں بستی نئی بسا لی ہے
غزل
نہ اب وہ خوش نظری ہے نہ خوش خصالی ہے
مشفق خواجہ