EN हिंदी
مختار صدیقی شیاری | شیح شیری

مختار صدیقی شیر

11 شیر

بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی
وسعتیں ان میں وہی لاتے ہیں ویرانوں کی

مختار صدیقی




عبرت آباد بھی دل ہوتے ہیں انسانوں کے
داد ملتی بھی نہیں خوں شدہ ارمانوں کی

مختار صدیقی




جن خیالوں کے الٹ پھیر میں الجھیں سانسیں
ان میں کچھ اور بھی سانسوں کا اضافہ کر لیں

مختار صدیقی




کبھی فاصلوں کی مسافتوں پہ عبور ہو تو یہ کہہ سکوں
مرا جرم حسرت قرب ہے تو یہی کمی یہاں سب میں ہے

مختار صدیقی




کیا کیا پکاریں سسکتی دیکھیں لفظوں کے زندانوں میں
چپ ہی کی تلقین کرے ہے غیرت مند ضمیر ہمیں

مختار صدیقی




میں تو ہر دھوپ میں سایوں کا رہا ہوں جویا
مجھ سے لکھوائی سرابوں کی کہانی تم نے

مختار صدیقی




میری آنکھوں ہی میں تھے ان کہے پہلو اس کے
وہ جو اک بات سنی میری زبانی تم نے

مختار صدیقی




نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی
کب التفات تھا کہ جو خوئے ستم گئی

مختار صدیقی




پھیرا بہار کا تو برس دو برس میں ہے
یہ چال ہے خزاں کی جو رک رک کے تھم گئی

مختار صدیقی