آخر دل کی پرانی لگن کر کے ہی رہے گی فقیر ہمیں
ہر رت آتے جاتے پائے ایک ہی شے کا اسیر ہمیں
دھوم مچائے بہار کبھی اور پات ہرے کبھی پیلے ہوں
ہر نیرنگیٔ قدرت دیکھے یکساں ہی دلگیر ہمیں
کیا کیا پکاریں سسکتی دیکھیں لفظوں کے زندانوں میں
چپ ہی کی تلقین کرے ہے غیرت مند ضمیر ہمیں
جن کی ہلکی گہری تلخی خون میں رچ رچ جاتی ہے
جزو حیات بنانے پڑے ہیں وہ اشعار میرؔ ہمیں
غزل
آخر دل کی پرانی لگن کر کے ہی رہے گی فقیر ہمیں
مختار صدیقی