دھیان کی موج کو پھر آئنہ سیما کر لیں
کچھ تجلی کی حضوری کا بھی یارا کر لیں
آج کا دن بھی یوں ہی بیت گیا شام ہوئی
اور اک رات کا کٹنا بھی گوارا کر لیں
جن خیالوں کے الٹ پھیر میں الجھیں سانسیں
ان میں کچھ اور بھی سانسوں کا اضافہ کر لیں
جن ملالوں سے لہو دل کا بنا ہے آنسو
ان کے آنکھوں سے برسنے کا نظارا کر لیں
احتیاطوں کی گزر گاہیں ہوئی ہیں سنسان
اب چھپایا ہوا ہر گھاؤ ہویدا کر لیں
غزل
دھیان کی موج کو پھر آئنہ سیما کر لیں
مختار صدیقی