نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی
کب التفات تھا کہ جو خوئے ستم گئی
پھیرا بہار کا تو برس دو برس میں ہے
یہ چال ہے خزاں کی جو رک رک کے تھم گئی
شاید کوئی اسیر ابھی تک قفس میں ہے
پھر موج گل چمن سے جو با چشم نم گئی
قبضہ میں جوش گل نہ خزاں دسترس میں ہے
راحت بھی کب ملی ہے اگر وجہ غم گئی
ہاں طرح آشیاں بھی انہیں خار و خس میں ہے
بجلی جہاں پہ خاص بہ رنگ کرم گئی
ہاں شائبہ گریز کا بھی پیش و پس میں ہے
وہ بے رخی کہ ناز کا تھی جو بھرم گئی
اب کائنات اور خداؤں کے بس میں ہے
اب رہبری میں قدرت دیر و حرم گئی
جادو غزل کا جذب تمنا کے رس میں ہے
یعنی وہ دل کی بات دلوں میں جو دم گئی
غزل
نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی
مختار صدیقی