آپ کی کون سی بڑھی عزت
میں اگر بزم میں ذلیل ہوا
مومن خاں مومن
اب شور ہے مثال جودی اس خرام کو
یوں کون جانتا تھا قیامت کے نام کو
مومن خاں مومن
بہر عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ
دم ہی نکل گیا مرا آواز پا کے ساتھ
مومن خاں مومن
بے خود تھے غش تھے محو تھے دنیا کا غم نہ تھا
جینا وصال میں بھی تو ہجراں سے کم نہ تھا
مومن خاں مومن
چارۂ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا
مومن خاں مومن
چل دئیے سوئے حرم کوئے بتاں سے مومنؔ
جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا
from the streets of idols fair
to the mosque did I repai
مومن خاں مومن
ڈرتا ہوں آسمان سے بجلی نہ گر پڑے
صیاد کی نگاہ سوئے آشیاں نہیں
مومن خاں مومن
دھو دیا اشک ندامت نے گناہوں کو مرے
تر ہوا دامن تو بارے پاک دامن ہو گیا
مومن خاں مومن
دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا
مومن خاں مومن