آپ کی کون سی بڑھی عزت
میں اگر بزم میں ذلیل ہوا
مومن خاں مومن
حال دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
مومن خاں مومن
ہاتھ ٹوٹیں میں نے گر چھیڑی ہوں زلفیں آپ کی
آپ کے سر کی قسم باد صبا تھی میں نہ تھا
مومن خاں مومن
ہے کس کا انتظار کہ خواب عدم سے بھی
ہر بار چونک پڑتے ہیں آواز پا کے ساتھ
مومن خاں مومن
ہے کچھ تو بات مومنؔ جو چھا گئی خموشی
کس بت کو دے دیا دل کیوں بت سے بن گئے ہو
مومن خاں مومن
ہم سمجھتے ہیں آزمانے کو
عذر کچھ چاہیے ستانے کو
مومن خاں مومن
ہو گئے نام بتاں سنتے ہی مومنؔ بے قرار
ہم نہ کہتے تھے کہ حضرت پارسا کہنے کو ہیں
مومن خاں مومن
ہو گیا راز عشق بے پردہ
اس نے پردہ سے جو نکالا منہ
مومن خاں مومن
اتنی کدورت اشک میں حیراں ہوں کیا کہوں
دریا میں ہے سراب کہ دریا سراب میں
مومن خاں مومن