اپنے گرد و پیش کا بھی کچھ پتا رکھ
دل کی دنیا تو مگر سب سے جدا رکھ
کمار پاشی
دشت جنوں کی خاک اڑانے والوں کی ہمت دیکھو
ٹوٹ چکے ہیں اندر سے لیکن من مانی باقی ہے
کمار پاشی
ہیں سارے انکشاف اپنے ہیں سارے ممکنات اپنے
ہم اس دنیا کا سارا علم لے جائیں گے ساتھ اپنے
کمار پاشی
ہوئی ہیں دیر و حرم میں یہ سازشیں کیسی
دھواں سا اٹھنے لگا شہر کے مکانوں سے
کمار پاشی
کبھی دکھا دے وہ منظر جو میں نے دیکھے نہیں
کبھی تو نیند میں اے خواب کے فرشتے آ
کمار پاشی
کوئی تو ڈھونڈ کے مجھ کو کہیں سے لے آئے
کہ خود کو دیکھا نہیں ہے بہت زمانوں سے
کمار پاشی
کچھ غزلیں ان زلفوں پر ہیں کچھ غزلیں ان آنکھوں پر
جانے والے دوست کی اب اک یہی نشانی باقی ہے
کمار پاشی
کیوں لوگوں سے مہر و وفا کی آس لگائے بیٹھے ہو
جھوٹ کے اس مکروہ نگر میں لوگوں کا کردار کہاں
کمار پاشی
مری دہلیز پر چپکے سے پاشیؔ
یہ کس نے رکھ دی میری لاش لا کر
کمار پاشی