یہ کیسی آگ برستی ہے آسمانوں سے
پرندے لوٹ کے آنے لگے اڑانوں سے
کوئی تو ڈھونڈ کے مجھ کو کہیں سے لے آئے
کہ خود کو دیکھا نہیں ہے بہت زمانوں سے
پلک جھپکتے میں میرے اڑان بھرتے ہی
ہزاروں تیر نکل آئیں گے کمانوں سے
ہوئی ہیں دیر و حرم میں یہ سازشیں کیسی
دھواں سا اٹھنے لگا شہر کے مکانوں سے
شکار کرنا تھا جن کو شکار کر کے گئے
شکاریو اتر آؤ تم اب مچانوں سے
روایتوں کو کہاں تک اٹھائے گھومو گے
یہ بوجھ اتار دو پاشیؔ تم اپنے شانوں سے
غزل
یہ کیسی آگ برستی ہے آسمانوں سے
کمار پاشی