اپنے گرد و پیش کا بھی کچھ پتا رکھ
دل کی دنیا تو مگر سب سے جدا رکھ
لکھ بیاض مرگ میں ہر جا انا الحق
اور کتاب زیست میں باب خدا رکھ
اس کی رنگت اور نکھرے گی خزاں میں
یہ غموں کی شاخ ہے اس کو ہرا رکھ
آ ہی جائے گی اداسی بال کھولے
آج اپنے دل کا دروازہ کھلا رکھ
یوں بھی بہہ جائے گا سب سیل بلا میں
اپنے گھر کے سب در و دیوار ڈھا رکھ
نا مرادی کا انہیں بھی تجربہ ہو
ان کے رستے میں بھی کوئی سانحا رکھ
سنسناتی رات کے آنے سے پہلے
دل میں جاتی دھوپ کا ٹکڑا سجا رکھ
بیش قیمت ہیں یہ دل کے زخم پاشیؔ
ان چراغوں کو ہواؤں سے بچا رکھ
غزل
اپنے گرد و پیش کا بھی کچھ پتا رکھ
کمار پاشی