EN हिंदी
کنولؔ ڈبائیوی شیاری | شیح شیری

کنولؔ ڈبائیوی شیر

6 شیر

غم دوراں غم جاناں غم عقبیٰ غم دنیا
کنولؔ اس زندگی میں غم کے ماروں کو نہ چین آیا

کنولؔ ڈبائیوی




ہنسی میں کٹتی تھیں راتیں خوشی میں دن گزرتا تھا
کنولؔ ماضی کا افسانہ نہ تم بھولے نہ ہم بھولے

کنولؔ ڈبائیوی




جس نے بنیاد گلستاں کی کبھی ڈالی تھی
اس کو گلشن سے گزرنے نہیں دیتی دنیا

کنولؔ ڈبائیوی




کنولؔ خوشی کی ہوا کرتی ہے یونہی تکمیل
غم حیات کے ہر بحر بیکراں سے گزر

کنولؔ ڈبائیوی




کچھ بجھی بجھی سی ہے انجمن نہ جانے کیوں
زندگی میں پنہاں ہے اک چبھن نہ جانے کیوں

کنولؔ ڈبائیوی




زندگی گم نہ دوستی گم ہے
یہ حقیقت ہے آدمی گم ہے

کنولؔ ڈبائیوی