نظر کا مل کے ٹکرانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے
محبت کا وہ افسانہ نہ تم بھولے نہ ہم بھولے
ستایا تھا ہمیں کتنا زمانے کے تغیر نے
زمانے کا بدل جانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے
بھری برسات میں پیہم جدائی کے تصور سے
وہ مل کر اشک برسانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے
بہاریں گلستاں کی راس جب ہم کو نہ آئی تھیں
خزاں سے دل کا بہلانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے
گزاریں کتنی راتیں گن کے تارے درد فرقت میں
جدائی کا وہ افسانہ نہ تم بھولے نہ ہم بھولے
فریب آرزو کھانا ہی فطرت ہے محبت کی
فریب آرزو کھانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے
ہنسی میں کٹتی تھیں راتیں خوشی میں دن گزرتا تھا
کنولؔ ماضی کا افسانہ نہ تم بھولے نہ ہم بھولے
غزل
نظر کا مل کے ٹکرانا نہ تم بھولے نہ ہم بھولے
کنولؔ ڈبائیوی