نہ گھوم دشت میں تو صحن گلستاں سے گزر
جو چاہتا ہے بلندی تو کہکشاں سے گزر
زمیں کو چھوڑ کے ناداں نہ آسماں سے گزر
ضرورت اس کی ہے تو ان کے آستاں سے گزر
اسی سے تیری عبادت پہ رنگ آئے گا
جبیں جھکانا ہوا ان کے آستاں سے گزر
ہے اصلیت ہے خزاں ہی بہار کی تمہید
بہار چاہے تو اندیشۂ خزاں سے گزر
وفا کی راہ میں دار و صلیب آتے ہیں
ضرورت اس کی ہے ہر ایک امتحاں سے گزر
کنولؔ خوشی کی ہوا کرتی ہے یونہی تکمیل
غم حیات کے ہر بحر بیکراں سے گزر
غزل
نہ گھوم دشت میں تو صحن گلستاں سے گزر
کنولؔ ڈبائیوی