ماہ و انجم کی روشنی گم ہے
کیا ہر اک بزم سے خوشی گم ہے
چاند دھندلا ہے چاندنی گم ہے
حسن والوں میں دل کشی گم ہے
زندگی گم نہ دوستی گم ہے
یہ حقیقت ہے آدمی گم ہے
اس ترقی کو اور کیا کہیے
شہر سے صدق کی گلی گم ہے
پھول لاکھوں ہیں صحن گلشن میں
ان کی ہونٹوں کی گو ہنسی گم ہے
محنت باغباں کا ذکر نہیں
غل ہے پھولوں سے دل کشی گم ہے
ہے ترقی نئے ادب کی یہ
شعر سے حسن شاعری گم ہے
غم بتاؤ کنولؔ کہاں ڈھونڈوں
بزم عالم سے دوستی گم ہے
غزل
ماہ و انجم کی روشنی گم ہے
کنولؔ ڈبائیوی