آس بندھاتی ہے سدا سکھ کی ہوگی بھور
اپنے ارادوں کو ابھی مت کرنا کمزور
جینت پرمار
بستر پہ لیٹے لیٹے مری آنکھ لگ گئی
یہ کون میرے کمرے کی بتی بجھا گیا
جینت پرمار
چاہت کی بھاشا نہیں شبدوں کو مت تول
خاموشی کا گیت سن چاند کی کھڑکی کھول
جینت پرمار
دل کو دکھاتی ہے پھر بھی کیوں اچھی لگتی ہے
یادوں کی یہ شام سہانی دل میں قید ہوئی
جینت پرمار
ہر ایک شاخ کے ہاتھوں میں پھول مہکیں گے
خزاں کا پیڑ بھی کپڑے بدلنا چاہتا ہے
جینت پرمار
جاڑے کی رت ہے نئی تن پر نیلی شال
تیرے ساتھ اچھی لگی سردی اب کے سال
جینت پرمار
جگنو تھا تارا تھا کیا تھا
دروازے پر کون کھڑا تھا
جینت پرمار
لاکھ چھپائے نہ چھپے ان راتوں کا بھید
آنکھوں کے آکاش میں پڑھے تھے چاروں وید
جینت پرمار
لمس کی وہ روشنی بھی بجھ گئی
جسم کے اندر اندھیرا اور ہے
جینت پرمار