جگنو تھا تارا تھا کیا تھا
دروازے پر کون کھڑا تھا
صدیاں بیتیں دروازے پر
کام فقط تو پل بھر کا تھا
پھنسی ہوئی تھی ڈور پنکھ میں
اک چڑیا کا حال برا تھا
سب کچھ زیر زبر کر ڈالا
تیز ہوا کو کس سے گلہ تھا
پتوں نے جب مٹی بجائی
میں اک مصرعہ ڈھونڈ رہا تھا
نظم کے روشن سیارے پر
میں نے اپنا نام لکھا تھا
میں نے اپنا نام لکھا تھا
جگنو تھا تارا تھا کیا تھا
غزل
جگنو تھا تارا تھا کیا تھا
جینت پرمار